Tuesday, November 26, 2013

’وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں‘

’وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں‘

آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے برقی نشریاتی اِدارے بالعموم اپنے ہر نشریہ کے لیے ایک میزبان شخصیت کا انتخاب کرتے ہیں۔ میزبان کا کام اپنے نشریہ کے دسترخوان پر مدعوکیے گئے مہمان (یا مہمانوں) کی میزبانی کے فرائض سرانجام دینا ہوتاہے۔ مگر جس طرح بعض پھوہڑ میزبان برسردسترخوان ہی اپنے مہمانوں سے مقابلہ پر اُتر آتے ہیں اورمہمانوں کے مقابلہ میں بڑھ بڑھ کر ہاتھ اورمُنہ چلانے لگتے ہیں،اسی طرح اِن نشریاتی اِداروں کے اکثر میزبان بھی اپنے مہمانوں کی چلنے ہی نہیں دیتے، خود ہی زبان چلا چلا کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔ زبان بھی ایسی کہ جو اُردو کہی جاسکتی ہے نہ انگریزی۔غرض یہ کہ وہ اپنے آگے کسی کو بات کرنے ہی نہیں دیتے۔کسی نے کچھ کہنے کو مُنہ کھولا نہیں کہ اُنھوں نے جھٹ اپنی تالو سے نہ لگنے والی قینچی کھول لی۔ کوئی بات کرے تو کیسے کرے کہ۔۔۔ بات پر واں زبان کٹتی ہے!

صاحبو!آخر عبیداﷲ بیگ مرحوم، قریش پورمرحوم اورضیاء محی الدین بھی تو نشریاتی میزبان ہوگزرے ہیں۔کیا آپ نے اِن صاحبوں کو کبھی بولتے نہیں سُنا؟ ہماری عمر کے اکثر لوگوں نے ضرور سُنا ہوگا۔ اُن کو بات کہتے سُن کر جی یہی چاہتا تھا کہ۔۔۔ ’وہ کہیں اورسُنا کرے کوئی!‘۔۔۔ یہ حضرات جب اُردوبولتے تواُردو ہی بولتے ۔اُردو میں انگریزی کی ’ویلڈنگ‘ نہیں کرتے تھے۔اُن کی شستہ، رواں، فصاحت و بلاغت اور سلاست سے پُر زباں پر رشک آتاتھا۔ کون نہیں جانتاکہمذکورہ تینوں اصحاب انگریزی سے نابلد نہ تھے۔ خوب اچھی واقفیت رکھتے تھے۔ بلکہ ضیاء محی الدین صاحب کا توانگریزی لہجہ بھی اِس غضب کا ہے کہ جب انگریزی بولتے ہیں تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کوئی غیر اہلِ زبان بول رہا ہے۔ اُنھوں نے برطانوی فلموں میں (انگریزی زبان میں) ادا کاری بھی کی ہے۔ مگر وہ اپنی اُردو نشریات میں، سامعین وناظرین و حاضرین پر، اپنی انگریزی دانی کا سکہ جمانے کی اَوچھی حرکت نہیں کرتے تھے۔آج کل ٹی وی چینلوں پر سیاسی و سماجی نشریات کے جتنے بھی میزبان نمودار ہوتے ہیں، اُن کے آغازِ گفتگو سے قبل اگر یہ کہہ دیا جائے کہ ’آپ کے سامنے ایک پُرمزاح اندازِ گفتگو پیش کیا جاتاہے‘ تو آپ کو واقعی لطف آجائے گا۔(یہ بات کوئی ٹی وی چینل تو نہیں کہے گا، ہم ہی کہے دیتے ہیں۔ آپ آج ہی یہ کام کر دیکھیے۔ہر’ٹاک شو‘ کے میزبان کی بات یہ سمجھ کر سنیے کہ وہ کوئی ’مسخرا طرزِ گفتگو‘ ایجاد کر رہا (یاکر رہی) ہے تو آپ کو زیادہ مزا آنے لگے گا)۔

ہم کسی کی دِل شکنی نہیں کرنا چاہتے۔ بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نشریاتی اِداروں کے میزبانوں کو اگر اپنے سامعین وناظرین میں اُ ن صاحبان جیسی آبرو، عزت اور مقبولیت پیداکرنے کی خواہش ہو، جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا تو اُنھیں اِس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ اُردو نشریات میں اُردو ہی بولاکریں۔ اِس فیصلے سے اُنھیں ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ باربار اپنا مُنہ ٹیڑھا کرنے کی جس مُشکل اوراذیت میں وہ مستقل مبتلارہتے ہیں، اُس سے اُنھیں ہمیشہ کے لیے نجات مِل جائے گی۔ دوسرافائدہ یہ ہوگا کہ قومی زبان بولنے کے باعث اُنھیں قوم تک اپنے جذبات واحساسات کا مکمل ابلاغ کرنے میں بہت آسانی ہوجائے گی۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ انگریزوں نے جب برصغیر کی مقامی عورتوں سے شادیاں کیں، خاص طور پر تامل یا سری لنکن عورتوں سے، یا برصغیرکے لوگوں نے جب انگریز میموں سے شادیاں کیں تواس کے نتیجہ میں جو نسل پیدا ہوئی وہ ابتدامیں ’’دوغلی نسل‘‘ کہی گئی۔ اِسی طریق پر اب ہمارے یہاں ایک’’ دوغلی زبان‘‘ بھی پیدا ہوگئی ہے۔جس کے نتیجہ میں ہماری قومی حیات کے ہر شعبۂ زندگی میں ایک ’’دوغلاپن‘‘ بھی پیداہوگیا ہے۔خواہ گھریلو زندگی ہو یا معاشرتی زندگی، یہ دوغلاپن ہرجگہ نمایاں ہے۔ہماراقومی رویہ بھی یہی ہو گیا ہے کہ ہم ’’رند‘‘ بھی رہناچاہتے ہیں اور ہاتھ سے جنت بھی نہیں جانے دینا چاہتے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ اب تک ہمیں خداہی مِلا نہ وصالِ صنم ہوسکا۔ خداکی طرف سے تو ہمارے ملک کے دوٹکڑے ہوجانے سمیت متعدد تنبیہات آچکی ہیں اور اب تک آتی ہی چلی جارہی ہیں۔ جب کہ ’’صنم‘‘ نے بھی بقول خان معاذاﷲ خان اب ہماری ’’کُٹ‘‘ لگانی شروع کردی ہے۔’’گیدڑ کُٹ‘‘۔
ہمارے یہاں عریانی وفحاشی سمیت ’’کلچر‘‘ کے نام پرجس جس طرح کیبے حیائی درآئی ہے، وہ دراصل انگریزی زبان کو ’’اپنالینے‘‘ کے سبب سے ہمارے تمدن میں سرایت کرگئی ہے۔۔۔’کیاخبر تھی کہ چلاآئے گاالحاد بھی ساتھ؟‘۔۔۔جولوگ طاغوت کی غلامی سے رہائی کے تمنائی ہیں اُنھیں سب سے پہلے طاغوت کا یہ قلادہ اپنے گلے سے اُتارپھینکنا چاہیے، نہ کہ وہ بھی اپنے تعلیمی اِداروں پر اعتماد کرکے بھیجے جانے والے بچوں کے گلے میں یہی پٹّاباندھناشروع کردیں۔انقلابی تبدیلیوں میں سے بعض تبدیلیاں ایسی ہوتی ہیں جو ’’بنیادی تبدیلیاں‘‘ نہیں کہی جاتیں مگربنیادی تبدیلیوں کے لیے بنیادی کردارضروراداکرتی ہیں۔ انھیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔تبدیلی کا پہلا قدم انھی بنیادوں سے اُٹھانا چاہیے۔ آخر کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں سے تو ہمیں آغاز کرنا ہوگا۔ آغاز ہی نہیں کریں گے توتبدیلی کیسے آئے گی؟ ہم خرابیوں کا رونا تو بہت روتے رہتے ہیں، مگر ایک دوسرے کو یہ تلقین نہیں کرتے کہ:
ضمیرِؔ جعفری صاحب اُٹھو کچھ کام فرماؤ
فقط رونے سے میری جان دُشواری نہیں جاتی

ہم نے اپنے بچوں کو عربی اورفارسی کی تعلیم سے محروم رکھا توہمارے بچے ہماری ڈیڑھ ہزاربرس کی دینی، تمدنی اور تہذیبی تاریخ سے یکسرکٹ کررہ گئے۔ اب ہمارے بچے اُردوسے بھی ناواقف ہوئے جارہے ہیں تو اُن کا رشتہ تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان ہی سے نہیں برصغیر کی دینی روایات سے بھی منقطع ہوتانظرآرہاہے،ان میں تحمل، برداشت، بُردباری، ہم آہنگی،احساسِ ملت و وحدت اوراسلامی اخوت جیسی روایات شامل تھیں۔(ماضی کے مزاروں پر جلتے ہوئے ان روشن دیوں کی بہت سی حکایتیں سنائی جاسکتی ہیں، مگر جگہ باقی نہیں رہی)۔

قومی زبان کے سرکاری اورعدالتی نفاذ کی اہمیت اور اس کا لزوم اپنی جگہ۔لیکن اگرہم معاشرتی سطح پر اُردوکے رواج کی ایک طاقتور تحریک برپا کردیں تو نہ صرف قوم کی خوداعتمادی بحال ہوگی، بلکہ ایک توانا عوامی تحریک کی موجودگی میں سرکاردربارکوبھی قومی اور عوامی زبان اپنانے پر مجبور ہوجانا پڑے گا۔ کیا ہمیں کسی قانون نے مجبورکر رکھا ہے کہ ہم اپنے دستخط اُردو میں نہ کریں؟ اپنے گھروں پر اپنے ناموں کی تختیاں اُردو میں نہ لگائیں؟ اپنی دُکانوں اور اپنے نجی دفتروں کانام پتا اُردو میں نہ لکھیں؟ کیاوجہ ہے کہ ہماری سڑکوں کے کنارے آویزاں کیے جانے والے اشتہارات اُردومیں نہ ہوں۔ آخر کس نے حکم دیا ہے کہ ہمارے نجی اِداروں کے دفتری اُمور اُردومیں سرانجام نہ دیے جائیں؟ہمیں کس کا خوف ہے کہ ہم اپنے غیرحکومتی مطبوعہ او ربرقی ذرائع ابلاغ پر، اپنے نجی سمعی وبصری نشریاتی اِداروں میں اور اپنی غیر حکومتی تنظیموں میں روزمرہ اُمور سرانجام دینے کے لیے اُردو کا استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں؟

حکومتی سطح پر قومی زبان کے نفاذ کے لیے طلبہ و اساتذہ کی تنظیموں اور قومی سیاسی جماعتوں کی جو کوششیں ہیں اُن کو جاری رہنا چاہیے اورقومی زبان کے ہر متوالے کو اِس جدوجہد میں اپنا حصہ بھی ادا کرتے رہنا چاہیے۔ مگر غیر حکومتی سطح پر ہمارے اہلِ دانش وبینش اگرچاہیں تو پوری قوم کا مجموعی مزاج بدل سکتے ہیں۔ اگرقومی مزاج بدل گیا تو حکومت اور نوکر شاہی اِس قومی سیلاب کے سامنے کیا بند باندھسکے گی؟

Thursday, November 21, 2013

سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عن



بیاد ”سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آنکھیں جو ذرا کھولوں
کلیجہ منہ کو آتا ہے
سڑک پر سرد راتوں میں
پڑے ہیں برف سے بچے
دسمبر لوٹ آیا ہے
عمر (رض)اب بھی نہیں آیا
کسی کی بے رِدا بیٹی
لہو میں ڈوب کر بولی
کوئی پہرہ نہیں دیتا
مِری تاریک گلیوں میں
میں سب کچھ ہار بیٹھی ہوں
درندوں کی حکومت میں
عمر (رض) اب بھی نہیں آیا
ذرا آگے کوئی ماں تھی
مُخاطب یُوں خُدا سے وہ
مِرے آنگن میں برسوں سے
فقط فاقہ ہی پلتا ہے
کوئی آہیں نہیں سُنتا
مِرے بے تاب بچوں کی
میں دروازے پہ دَستک کو
زمانے سے ترستی ہوں
عمر (رض) اب کیوں نہیں آتا
عمر (رض) اب کیوں نہیں آتا
میں آنکھیں جو ذرا کھولوں
کلیجہ منہ کو آتا ہے

::::::::::::عابی مکھنوی :::::::::::::

امریکہ کا فضل





عرب میں ایک عورت تھی اس کا نام اُم جعفر تھا۔ انتہائی سخی تھی۔ لوگوں میں ایسے تقسیم کرتی تھی کہ دائیں کو بائیں ہاتھ کا پتا نہ چلے۔ کچھ دنوں سے وہ ایک راستے سے گزرنے لگی۔ اس راستے پر دو اندھے بیٹھے ہوتے۔ یہ دونوں صدائیں لگاتے۔ ایک کی صدا ہوتی: "الٰہی! مجھے اپنے فضل و کرم سے روزی عطا کر۔ " دوسرا اندھا کہتا: "یا رب مجھے ام جعفر کا بچا ہوا عطا کر۔"

ام جعفر ان دونوں کی صدائیں سنتی اور دونوں کو عطا کرتی۔ جو شخص الله کا فضل طلب کر رہا تھا، اسے دو درہم دیتی جبکہ "ام جعفر" کے فضل کے طلبگار کو ایک بھنی ہوئی مرغی عطا کرتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسے مرغی ملتی، وہ اپنی مرغی دوسرے اندھے کو دو درہم میں بیچ دیتا۔ کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن ام جعفر اس اندھے کے پاس آئی جو ام جعفر کا فضل طلب کرتا تھا اور اس سے سوال کرتا تھا اور اس سے سوال کیا: "کیا تمہیں سو دینار ملے ہیں؟" اندھا حیران ہو گیا۔ اس نے کہا: "نہیں! مجھے صرف ایک بھنی ہوئی مرغی ملتی تھی جو میں دو درہم میں بیچ دیتا تھا"۔ ام جعفر نے کہا: "جو الله کا فضل طلب کر رہا تھا، میں اسے دو درہم دیتی اور تمہیں بھنی ہوئی مرغی میں دس دینار ڈال کر دیتی رہی۔" اندھے نے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ چیخنے اور چلانے لگا: "ہائے میری کمبختی، کاش میں ایسا نہ کرتا۔ میں مارا گیا۔" ام جعفر نے کہا: "یقینا اللہ کا فضل طلب کرنے والا کامیاب ہے اور انسانوں کے فضل کا طلبگار محروم ہے۔"

لاریب! جو الله کے فضل کے سوا دیگر راستے تلاش کرتے ہیں، انھیں دنیا میں گھاٹا ملتا ہے اور آخرت میں رسوائی نصیب ہوتی ہے۔ کم ہی ایسے ہوں گے جو فاقوں سے مر جاتے ہوں گے۔ اس کے باوجود اس دنیا میں ایسوں کی کمی نہیں جو درہم و دینار کی خاطر ایمان تک بیچ دیتے ہیں۔ حکمران اپنی قوموں کا سودا کر لیتے ہیں۔ بیٹوں کو ڈالروں کے عوض بیچ کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ نتیجے میں کیا ملتا ہے؟ ذلت و رسوائی اور دنیا بھر کی پھٹکار! 64 سال ہو گئے، ہم الله کے فضل کو چھوڑ کر ملکوں اور شخصیات کے فضل تلاش کرنے میں لگے رہے۔ جب انتخابات کا موسم آتا ہے، ہر سیاستداں یہی کہتا ہے کہ آئندہ کسی سے بھیک نہیں مانگیں گے۔ کشکول توڑ دیں گے۔ "الله کے فضل" کے سوا کسی سے فضل کے طلبگار نہیں ہوں گے، مگر حقیقت کی دنیا میں دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ پیشروئوں سے زیادہ "بھکاری پن" کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے امریکہ میں یہ محاورہ بن گیا کہ پاکستانی ڈالر کی خطر اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں! خصوصا نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے ڈالر کے لیے جو کچھ کیا، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ بدلے میں کیا ملا؟ معاشی خوشحالی؟؟ نہیں! رسوائی، جگ ہنسائی اور معاشی بدحالی۔ دس سال بعد دامن کو دیکھیے۔ پورا تار تار ہے اور اس میں بھیک کے چند دانوں کے سوا کچھ نہیں۔ گزشتہ دنوں اخبارات میں ایک رپورٹ آئی ہے جس سے امریکہ کا "فضل" تلاش کرنے والوں کی آنکھیں اب تو کھل جانی چاہئیں۔

بتایا گیا کہ قیام پاکستان سے2012 تک 64 برسوں میں امریکہ نے پاکستان کو 68 ارب ڈالر کی امداد دی۔ 1948 میں پہلی بار لاکھ 70ہزار ڈالر کی رقم معاشی امداد کی صورت میں ملی۔ بدلے میں امریکہ نے سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے پاکستان کے ہوئی اڈے استعمال کرنے کی فرمائش کی۔ ایوب خان کا دور آیا تو ڈھائی ارب ڈالر ملے۔ جب روس کے خلاف نہتے افغانوں نے جہاد شروع کیا اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا عہد کیا اس وقت امریکہ بھی اس میں کود پڑا۔ جہاد کے اثرات زائل کرنے کے لیے ایک بار پھر پاکستان کو امداد دی گئی۔

چنانچہ1983  سے1988  تک پاکستان کو ہر سال ایک ارب ڈالر امداد دی گئی۔ امریکہ نے افغان جہاد کے ثمرات سمیٹنے کے بعد آنکھیں پھیر لیں۔ 10 سال تک مختلف بہانوں سے پابندیاں لگائے رکھیں۔ 2001 میں اسے پھر ضرورت ہوئی اور امداد بحال ہو گئی جو 2012 تک مجموعی طور پر محض25  ارب ڈالر بنتی ہے۔

یہ امریکی امداد کی تفصیلات ہیں، لیکن امریکہ کی اس دوستی میں جتنا نقصان پاکستان کا ہوا، وہ اس امداد سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ ان دس برسوں میں امریکہ کے "فضل" کے نتیجے میں پاکستان کو100  ارب ڈالر سے زیادہ معاشی نقصان پہنچ چکا ہے۔ انسانی جانوں کا جو ضیاع ہوا، اسے اعداد و شمار کے دائرے میں لانا ممکن نہیں۔ ان دس برسوں میں بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا۔ ہمارے ان قبائلیوں کو جنہوں نے ہمیشہ مفت کے سپاہیوں کا کردار ادا کیا، اپنے ہی اداروں کے ساتھ لڑا دیا گیا۔ اسی "امریکی فضل" کے نتیجے میں ہمارے ہزاروں لوگ اپنے گھروں سے بےگھر ہوئے۔ اپنے ہی ملک میں مہاجرت کی زندگی پر مجبور ہوئے۔ سوات کے وہ قافلے آج بھی یاد آتے ہیں تو آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔ وہ عزت مآب مائیں جنھیں کبھی آسمان نے بھی بے پردہ نہیں دیکھا تھا، اس "امریکی فضل" کے نتیجے میں بےپردہ ہوئیں۔ وزیرستان کی کتنی کلیاں ہیں، جو اس "امریکی فضل" کے نتیجے میں کھلنے سے پہلے ہی مسل دی گئیں۔ ان دنوں وزیرستان کے چند لوگ امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کی رودادوں نے وہاں لوگوں کو رلا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تو اس "امریکی فضل" کا بہت معمولی نظارہ ہے۔ اس امریکی فضل نے ہمارے اداروں کو متنازع بنا دیا۔ وہ جنھیں دیکھ کر عقیدت کے آنسو چھلک پڑتے تھے، اسی امریکی فضل نے لوگوں کی نظروں سے گرا دیا۔

ہمارا روشن خیال طبقہ بار بار ہمیں تعنے دیتا ہے کہ امریکہ کی امداد کھاتے ہو۔ ان کے ڈالروں پر پلتے ہو اور ان کے خلاف زبانیں بھی کھولتے ہو۔ کاش! وہ تعصب کی عینک اتار کر تجزیہ کریں کہ امریکہ کی امداد کے نتیجے میں ہم نے کتنی بربادیاں سمیٹیں؟ اپنے ملک کو کتنے مسائل کا شکار کیا؟ سب سے بڑھ کر اس امداد کے نتیجے میں امریکہ اور دنیا میں ہمارا کیا مقام بنا؟ ابھی چند دن قبل جب پاکستانی وزیراعظم امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھ رہے تھے، اخبارات میں تصویر آئی اور خبر میں بتایا گیا کہ ان کے استقبال کے لیے دو تین ادنیٰ درجے کے امریکی اہلکار موجود ہیں۔ آنکھوں کے سامنے وہ ویڈیو گردش کرنے لگی جب صدر ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تھے۔  اس وقت ان کے استقبال کے لیے امریکی صدر بذات خود موجود تھا۔ پھول اور پتیاں نچھاور ہو رہی تھیں، لیکن آج دیکھیے اس "امریکی فضل" نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ امریکہ میں ہی نہیں، پوری دنیا میں ہماری کوئی ساکھ نہیں بچی۔ آپ عام زندگی میں دیکھ لیجیے۔ جو شخص ہر وقت مانگتا رہتا ہو، اس کی معاشرے میں کتنی عزت رہ جاتی ہے! چنانچہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ آج اگر ہمارے حکمران یہ فیصلہ کر لیں کہ امریکہ کا فضل تلاش نہں کریں گے، اپنی قوم اور ملک کے وسائل بروئے کار لائیں گے، کسی ملک اور شخص کے "فضل" کے بجائے صرف الله کا فضل تلاش کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ہم دنیا میں کیسے اپنا مقام بنا لیتے ہیں۔

Tuesday, November 12, 2013

Dr Atta Ur Rehman

گزشتہ مقالوں میں ،میں نے توانائی کے شعبے میں حیرت انگیز دریافتوں کاذکر کیا تھا۔ اس مقالے میں توانائی کی پیداوار اور اس کی حفاظت کیلئے مزید چند نئی ٹیکنالوجیوں کی دریافتیں نذر قارئین ہیں۔
سمندر کی سطح کے پانی اور اس کی گہرائی کے پانی کے درجہ حرارت کے فرق کا استعمال ایک بڑا ذریعہ توانائی ہے۔ سطح سمندر کا درجہ حرارت عموماً تہہ سمندر کے در جۂ حرارت سے زیادہ ہوتا ہے۔یہ درجۂ حرارت کی تفریق بجلی کی پیداوار کیلئے بخوبی استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس کیلئے Ocean Thermal Energy Conversion (O.T.E.C.), ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے جس میں سطحِ سمندر کا گرم پانی حرارت منتقلی کے پمپ سے گزارا جاتا ہے اس عمل سے جو حرارت حاصل ہوتی ہے اسے کم درجۂ اُبال والے مائع مثلاً امونیا کو بخارات میں تبدیل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اس بخاری گیس سے جو دبائو حاصل ہوتا ہے وہ بجلی بنانے والی ٹربائنوں کو چلانے کیلئے استعمال ہوتا ہے جن سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔
اس عمل سے بہتر نتائج کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ سطح سمندر اور سمندری تہہ کے درجہ حرارت کا فرق کم ازکم 20 درجہ Celsius ہو ۔ جیسا کہ عموماً گرم ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ فرق جتنا زیادہ ہو گا بتدریج اتنی ہی بجلی زیادہ بنے گی ایک درجے کے فرق سے 15% زیادہ بجلی کی پیداوار ہوتی ہے لہٰذا یہ دلچسپ ٹیکنالوجی ہوائی اور شمسی توانائی کے بر عکس جو موسم پر منحصر ہیں زیادہ مستقل، مستحکم اور بھروسہ مند ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کئی پائلٹ پلانٹوں میں استعمال کی جا رہی ہے اور جلد ہی تجارتی بنیادوں پر دستیاب ہو گی۔ Lockheed Martin, VanuatuXenesys, Pacific Otec اور چند دوسری کمپنیاں ایسی مناسب جگہ کی تلاش میں ہے جہاں سطح آب اور تہہ سمندر کے درجۂ حرارت میں زیادہ فرق ہو تاکہ تجارتی بنیادوں پر پروجیکٹ لگانے میں کامیاب ہو سکیں ۔ اس سلسلے کا10-15 میگاواٹ گنجائش کا حامل پہلا پلانٹ 2014 میں لگایا جائے گا جس کے بعد مزید گنجائش والا 100میگاواٹ کا پلانٹ لگایا جائے گا۔ 
شمسی خلیوں کی ٹیکنالوجی میں ان چند سالوں میں قابل دید پیشرفت ہوئی ہے۔اس میں سب سے قابلِ ستائش مادّہ گریفین ہے ۔یہ مادّہ کاربن کی ساختوں میں سے ایک ہے جس میں ہیرا، گریفائیٹ وغیرہ شامل ہیں۔یہ ہیرے سے کہیں زیادہ مضبوط اور ربڑ کی طرح لچکدار ہے۔یہ لوہے سے تقریباً 200 گنا مضبوط اور انسانی بال سے 150 گنا باریک ہے۔یہ اس قدر مضبوط ہے کہ اگر ہاتھی کو اس سے لٹکا دیا جائے تو یہ پھر بھی نہیں ٹوٹے گا۔ یہ مادّہ کاربن جوہر کی ایک تہہ پر مبنی ہوتا ہے۔جامعہ مانچسٹر کے دو سائنسدانوں Andre Geim اور Konstantin Novoselov کو 2010 میں طبعیات کے مضمون میں اس دو سمتی مادّے گریفین پر کامیاب تجربے کی بدولت نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ عام طور پر سلیکون کو شمسی خلیوں کی تیّاری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اب یہ ثابت ہوا ہے کہ گریفین اس سے کہیں بہتر طریقے سے روشنی کو بجلی میں منتقل کر سکتا ہے۔اسپین کے ادارے Institute of Photonic Sciences (ICFO) میں کئے گئے ایک تجزئیے کے مطابق گرفین سے تیّارکردہ شمسی خلیوں کی کارکردگی60% ہے جو کہ موجودہ تجارتی بنیادوں پر استعمال ہونے والے شمسی خلیوں کی کارکردگی سے چار گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ گریفین ایک عمدہ موصل conductor بجلی ہے بلکہ اس کی کارکردگی تانبے سے بھی بہتر پائی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے برقی آلات کی صنعت میں کافی پیشرفت ہوئی ہے۔ اس ’کراماتی مادّے‘ کی بدولت کاغذ جیسے پتلے ٹیلی ویژن اور کمپیوٹرتیّار کئے جا رہے ہیں بلکہ جنوبی کوریا کے محقّقین نے گریفین کو استعمال کرتے ہوئے 25 انچ کا ٹچ اسکرین ٹیلی وژن بھی تیار کر لیا ہے۔ کل کو شاید آپ کا اخبار بھی اسی مادّے سے تیارکردہ ملے گا۔ جسے سائیڈ میں لگے ٹیب سے فوری طور پر تازہ ترین کیا جاسکے گا۔
ہوائی توانائی کو استعمال کرنے کیلئے منفرد طریقے دریافت کئے جا رہے ہیں۔ دنیا میں کافی جگہوں پر ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ بہت بڑی ہوائی چرخیاں لگی ہوئی ہیں جن کے تین بھاری بھرکم بلیڈ ہیں جن سے بجلی حاصل کی جا رہی ہے ۔یہ ہوائی چرخیاں اتنی کارآمد نہیں ہیں کیونکہ تقریباًآدھی سے زیادہ ہوا ان کے بلیڈ کے گرِد ہوتی ہے ان بلیڈوں سے اندر نہیں جارہی ہوتی لہٰذا بجلی کی پیداواری صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ ایک امریکی کمپنی نے نئی قسم کی ہوائی چرخیاں تیّار کی ہیں جن کا ڈیزائن جیٹ انجن کے پنکھوں سے مشابہ ہے۔ اس کے بلیڈ کافی چھوٹے ہوتے ہیں اور ہوائی رخ کی طرف مڑ سکتے ہیں لہٰذا اپنے اردگرد کی تمام ہوا چرخی کے ذریعے ٹربائن تک پہنچاتے ہیں اور بڑی چرخیوں کی نسبت زیادہ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ ابتدا میں10 کلو واٹ کی طاقت کی حامل یہ چھوٹی چرخیاں لگائی جائیں گی ان کی کامیابی کے بعد میگا واٹ طاقت والی چرخیاں لگائی جائیں گی۔البتہ ایک مسئلہ ان چھوٹی ہوائی چرخیوں میں یہ ہے کہ بڑی ہوائی چرخیوں کی طرح یہ ہر قسم کی ہوائی حالت میں یکساں نہیں چل سکتیں مثلاً تیز طوفانی ہوائوں میں چرخی کو زیادہ تیز نہیں گھومنا چاہئے جبکہ بڑی چرخیاں بلیڈ کے مخصوص ڈیزائن کی بدولت اپنی چرخی کی رفتار کو قابو میں رکھ سکتی ہیں ۔اس کیلئے ان بلیڈوں میں سینسر لگائے جاتے ہیں جو ان ٹربائنوں سے جُڑے کمپیوٹروں کو سگنل پہنچاتے ہیں جو کہ ان ٹربائنوں کی رفتار کو ضرورت کے مطابق درست کر لیتے ہیں یہ کافی مہنگا حل ہے۔ 
قدرت ایک بہت بڑی معلّم ہے۔ تیز ہوائی جھکّڑوں میں ڈریگن مکھیاں جس طرح سے اپنی رفتار کو یکساں اور قابو میں رکھتی ہیں ان میں اس حل کے لئے کافی نشانیاں چھپی ہوئی ہیں۔ تیز و طوفانی ہوائوں میں ڈریگن مکھیاں اپنی رفتار پر اپنے پروں کی مخصوص ساخت کی وجہ سے قابو رکھ سکتی ہیں جو کہ کافی باریک اور لچکدار ہوتے ہیں اور ان پر ننھے ننھے سے ابھار ہوتے ہیں۔یہ ابھار ڈھیر سارے چھوٹے چھوٹے ہوائی بھنور بنالیتے ہیں جس کی بدولت انتہائی اعلیٰ قسم کا ہوائی ٹھرائو بنتا ہے۔ اسی حقیقت کے پیشِ نظر جاپان میں Nippon Bunri University کے Akira Obata نے ایسی مائکرو ٹربائن ایجاد کی ہے جو کارکردگی میں پرانے ٹربائنوں سے کہیں بہتر ہے۔پاکستان کو اپنی توانائی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ملک میں موجود کوئلہ، پانی، ہوا اور حال ہی میں دریافت کردہ سلیٹی گیس اور سلیٹی تیل کے ذخائر کو استعمال کرنا چاہئے جن کے بارے میں میرے پچھلے مقالوں میں ذکر کیا جا چکا ہے۔
قارئین میں سے ایک نے اس طرف بھی اشارہ کیا جو بالکل درست ہے کہ ہمارے ملک میں جتنے بھی برقی آلات بن رہے ہیں وہ سب ’توانائی نااہل‘ ہیں مثلاً پنکھے ، ٹیوب ویل، موٹریں اور چھوٹی موٹی ورکشاپ کی مشینیں نہ صرف چالو ہوتے وقت زیادہ بجلی گھسیٹتی ہیں بلکہ چلنے کے دوران بھی امریکی، یورپی حتیٰ کہ چینی آلات سے کہیں زیادہ بجلی استعمال کرتی ہیں۔ کوئی بھی آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ ایسے ہی لاکھوں پنکھے، ٹیوب ویل، موٹریں اور ورکشاپ موٹریں سب مل کر کس قدر بجلی کی توانائی برباد کر رہے ہیں محض اس لئے کہ ان صنعتوں میں جہاں یہ موٹریں اور آلات تیار کئے جا رہے ہیں وہاں کا معیار ناقص ہے بالخصوص توانائی کی کارکردگی کے حوالے سے۔ اسی طرح مقامی طور پر بنائے گئے بسوں اور ٹرکوں کے ڈھانچے بھی ’ توانائی نااہل‘ ہیں ان پر ہمیں فوری توجّہ دینی چاہئے ۔

Tuesday, November 5, 2013

Umar farooq r

ہم نے بچپن میں پڑھا تھا کہ مقدونیہ کا الکزنڈر ٢٠ سال کی عمر میں بادشاہ بنا، ٢٣ سال کی عمر میں مقدونیہ سے نکلا، سب سے پہلے یونان فتح کیا پھر ترکی میں داخل ہوا، پھر ایران کے دارا کو شکست دی، پھر شام میں داخل ہوا اور وہاں سے یروشلم اور بابل کا رخ کیا اور پھر مصر پہنچا۔ وہاں سے ہندوستان آیا اور راجہ پورس کو شکست دی، اپنے عزیز از جان گھوڑے کی یاد میں پھالیہ شہر آباد کیا اور پھر مکران کے راستے واپسی کے سفر میں ٹائیفوا یڈ میں مبتلا ہو کر بخت نصر کے محل میں ٣٣ سال کی عمر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ دنیا کو بتایا گیا کہ وہ اپنے وقت کا عظیم فاتح جنرل اور بادشاہ تھا اور اسی وجہ سے دنیا اس کو الکزنڈر دی گریٹ یعنی سکندر اعظم ۔ بمعنی فاتح اعظم ۔ کے لقب سے یاد کرتی ہے۔

آج اکیسویں صدی میں دنیا کے مورخین کے سامنے یہ سوال رکھا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہوتےہوئے کیا واقعی الکزنڈر فاتح اعظم کے لقب کا حقدار ہے؟ سوچئے، الکزنڈر جب بادشاہ بنا تو اسے بہترین ماہروں نے گھڑ سواری اور تیراندازی سکھائی، اسے ارسطو جیسے استادوں کی صحبت ملی اور جب ٢٠ سال کا ہوا تو تخت و تاج پیش کر دیا گیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سات پشتوں میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا تھا اور وہ اونٹ چراتے چراتے جوان ہوئے تھے۔ آپ نے نیزہ بازی اور تلوار چلانے کا ہنر بھی کسی استاد سے نہیں سیکھا تھا۔ الکزنڈر نے ایک منظم فوج کے ساتھ دس برسوں میں ١٧ لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا، جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ نے بغیر کسی بڑی منظم فوج کے دس برسوں میں ٢٢ لاکھ مربع میل کا علاقہ زیرنگوں کیا جس میں روم اور ایران کی دو عظیم مملکت بھی شامل ہیں۔

یہ تمام علاقہ جو گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار ہو کر فتح ہوا اس کا انتظام و انصرام بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ نے بہترین انداز میں چلایا۔ الکزنڈر نے جنگوں کے دوران بے شمار جرنیلوں کا قتل بھی کرایا اور اس کے خلاف بغاوتیں بھی ہوئیں۔ ہندوستان میں اسکی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار بھی کیا لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کسی ساتھی کو انکے کسی حکم کی سرتابی کی جرات نہ تھی وہ ایسے جرنیل تھے کہ عین میدان جنگ میں حضرت خالد بن ولیدؓ جیسے سپہ سالار کو معزول کیا، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو کوفے کی گورنری سے ہٹایا، حضرت حارث بن کعبؓ سے گورنری واپس لی، حضرت عمرو بن العاصؓ کا مال ضبط کرنے کا حکم دیا اور حرص کے علاقے کے ایک اور گورنر کو واپس بلا کر سزا کے طور اونٹ چرانے پر لگا دیا۔ آپ کے ان تمام سخت فیصلوں کے خلاف کسی کو حکم عدولی کی جرات نہ ہوئی سب کو معلوم تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ فیصلہ صرف عدل کی بنیاد پر کرتے ہیں اور عدل کے خلاف وہ کچھ  برداشت نہیں فرماتے۔

الکزنڈر نے ١٧ لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا لیکن دنیا کو کوئی نظام نہ دے سکا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے دنیا کو ایسے ایسے نظام دیے جو آج تک تک کسی نہ کسی شکل میں پوری دنیا میں رائج ہیں۔ آپ نے سنہ ہجری کا آغاز کروایا، موذنوں کی تنخواہ مقرر کی اور تمام مسجدوں میں روشنی کا بندوبست فرمایا۔ دنیاوی فیصلوں میں آپ نے ایک مکمل عدالتی نظام تشکیل دیا اور جیل کا تصّور دیا، آبپاشی کا نظام بنایا، فوجی چھاؤنیاں بنوائیں اور فوج کا با قاعدہ محکمہ قائم کیا۔ آپ نےدنیا بھر میں پہلی مرتبہ دودھ پیتے بچوں، بیواؤں اور معذوروں کے لئے وظائف مقرر کیے۔

حضرت عمر فاروقؓ کے دسترخوان پر کبھی دو سالن نہیں ہوتے تھے، سفر کے دوران نیند کے وقت زمین پر اینٹ کا تکیہ بنا کر سو جایا کرتے تھے، آپ کے کرتے پر کئی پیوند رہا کرتے تھے، آپ موٹا کھردرا کپڑا پہنا کرتے تھے اور آپ کو باریک ملایم کپڑے سے نفرت تھی۔ آپ جب بھی کسی کو گورنر مقرر فرماتے تو تاکید کرتے تھے کہ کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑا نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی پر دروازہ بند نہ کرنا۔ آپؓ فرماتے تھے کہ عادل حکمران بے خوف ہو کر سوتا ہے - آپ کی سرکاری مہر پر لکھا تھاعمر ۔ نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے۔

آپ فرماتےظالم کو معاف کرنا مظلوم پر ظلم کرنے کے برابر ہے، اور آپ کا یہ فقرہ آج دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لئے چارٹر کا درجہ رکھتا ہے کہمائیں اپنے بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے کب سے انھیں غلام بنا لیا؟ آپ کے عدل کی وجہ سے رسول الله صلى الله عليه وسلم نے آپ کوفاروق کا لقب دیا اور آج دنیا میں عدل فاروقی ایک مثال بن گیا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ شہادت کے وقت مقروض تھے چنانچہ وصیّت کے مطابق آپ کا مکان بیچ کر آپ کا قرض ادا کیا گیا۔

اگر آج دنیا بھر کے مورخین الکزنڈر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ کا موازنہ کرتے ہیں تو انھیں حضرت عمر فاروقؓ کی پہاڑ جیسی شخصیت کے سامنے الکزنڈر ایک کنکر سے زیادہ نہیں معلوم ہوتا کیونکہ الکزنڈر کی بنائی سلطنت اسکے مرنے کے پانچ سال بعد ہی ختم ہو گئی تھی جبکہ حضرت عمر فاروقؓ نے جس جس خطّے میں اسلام کا جھنڈا لگایا وہاں آج بھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا سنائی  دیتی ہے۔ الگزنڈر کا نام آج صرف کتابوں میں ملتا ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دئیے ہوے نظام آج بھی کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے ٢٤٥ ملکوں میں رائج ہیں۔آج بھی جب کبھی کوئی خط کسی ڈاک خانے سے نکلتا ہے، یا کوئی سپاہی وردی پہنتا ہے، یا وہ چھٹی پر جاتا ہے، یا پھر کوئی معذور یا بیوہ حکومت سے وظیفہ پاتے ہیں تو بلا شبہ حضرت عمر فاروقؓ کی عظمت تسلیم کرنی پڑتی ہے۔

تقسیم ہند کے دوران لاہور کے مسلمانوں نے ایک مرتبہ انگریزوں کو دھمکی دی کہ 'اگر ہم گھروں سے نکل پڑے تو تمہیں چنگیز خان یاد آ جائے گا' ۔۔ اس پر جواھر لال نہرو نے کہا کہ 'افسوس یہ مسلمان بھول گئے کہ ان کی تاریخ میں کوئی عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) بھی تھا'...
اور واقعی آج ہم یہ بھولے ہوئے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تھا کہاگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمربن خطاب ہی ہوتا۔