Tuesday, November 26, 2013

’وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں‘

’وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں‘

آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے برقی نشریاتی اِدارے بالعموم اپنے ہر نشریہ کے لیے ایک میزبان شخصیت کا انتخاب کرتے ہیں۔ میزبان کا کام اپنے نشریہ کے دسترخوان پر مدعوکیے گئے مہمان (یا مہمانوں) کی میزبانی کے فرائض سرانجام دینا ہوتاہے۔ مگر جس طرح بعض پھوہڑ میزبان برسردسترخوان ہی اپنے مہمانوں سے مقابلہ پر اُتر آتے ہیں اورمہمانوں کے مقابلہ میں بڑھ بڑھ کر ہاتھ اورمُنہ چلانے لگتے ہیں،اسی طرح اِن نشریاتی اِداروں کے اکثر میزبان بھی اپنے مہمانوں کی چلنے ہی نہیں دیتے، خود ہی زبان چلا چلا کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔ زبان بھی ایسی کہ جو اُردو کہی جاسکتی ہے نہ انگریزی۔غرض یہ کہ وہ اپنے آگے کسی کو بات کرنے ہی نہیں دیتے۔کسی نے کچھ کہنے کو مُنہ کھولا نہیں کہ اُنھوں نے جھٹ اپنی تالو سے نہ لگنے والی قینچی کھول لی۔ کوئی بات کرے تو کیسے کرے کہ۔۔۔ بات پر واں زبان کٹتی ہے!

صاحبو!آخر عبیداﷲ بیگ مرحوم، قریش پورمرحوم اورضیاء محی الدین بھی تو نشریاتی میزبان ہوگزرے ہیں۔کیا آپ نے اِن صاحبوں کو کبھی بولتے نہیں سُنا؟ ہماری عمر کے اکثر لوگوں نے ضرور سُنا ہوگا۔ اُن کو بات کہتے سُن کر جی یہی چاہتا تھا کہ۔۔۔ ’وہ کہیں اورسُنا کرے کوئی!‘۔۔۔ یہ حضرات جب اُردوبولتے تواُردو ہی بولتے ۔اُردو میں انگریزی کی ’ویلڈنگ‘ نہیں کرتے تھے۔اُن کی شستہ، رواں، فصاحت و بلاغت اور سلاست سے پُر زباں پر رشک آتاتھا۔ کون نہیں جانتاکہمذکورہ تینوں اصحاب انگریزی سے نابلد نہ تھے۔ خوب اچھی واقفیت رکھتے تھے۔ بلکہ ضیاء محی الدین صاحب کا توانگریزی لہجہ بھی اِس غضب کا ہے کہ جب انگریزی بولتے ہیں تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کوئی غیر اہلِ زبان بول رہا ہے۔ اُنھوں نے برطانوی فلموں میں (انگریزی زبان میں) ادا کاری بھی کی ہے۔ مگر وہ اپنی اُردو نشریات میں، سامعین وناظرین و حاضرین پر، اپنی انگریزی دانی کا سکہ جمانے کی اَوچھی حرکت نہیں کرتے تھے۔آج کل ٹی وی چینلوں پر سیاسی و سماجی نشریات کے جتنے بھی میزبان نمودار ہوتے ہیں، اُن کے آغازِ گفتگو سے قبل اگر یہ کہہ دیا جائے کہ ’آپ کے سامنے ایک پُرمزاح اندازِ گفتگو پیش کیا جاتاہے‘ تو آپ کو واقعی لطف آجائے گا۔(یہ بات کوئی ٹی وی چینل تو نہیں کہے گا، ہم ہی کہے دیتے ہیں۔ آپ آج ہی یہ کام کر دیکھیے۔ہر’ٹاک شو‘ کے میزبان کی بات یہ سمجھ کر سنیے کہ وہ کوئی ’مسخرا طرزِ گفتگو‘ ایجاد کر رہا (یاکر رہی) ہے تو آپ کو زیادہ مزا آنے لگے گا)۔

ہم کسی کی دِل شکنی نہیں کرنا چاہتے۔ بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نشریاتی اِداروں کے میزبانوں کو اگر اپنے سامعین وناظرین میں اُ ن صاحبان جیسی آبرو، عزت اور مقبولیت پیداکرنے کی خواہش ہو، جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا تو اُنھیں اِس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ اُردو نشریات میں اُردو ہی بولاکریں۔ اِس فیصلے سے اُنھیں ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ باربار اپنا مُنہ ٹیڑھا کرنے کی جس مُشکل اوراذیت میں وہ مستقل مبتلارہتے ہیں، اُس سے اُنھیں ہمیشہ کے لیے نجات مِل جائے گی۔ دوسرافائدہ یہ ہوگا کہ قومی زبان بولنے کے باعث اُنھیں قوم تک اپنے جذبات واحساسات کا مکمل ابلاغ کرنے میں بہت آسانی ہوجائے گی۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ انگریزوں نے جب برصغیر کی مقامی عورتوں سے شادیاں کیں، خاص طور پر تامل یا سری لنکن عورتوں سے، یا برصغیرکے لوگوں نے جب انگریز میموں سے شادیاں کیں تواس کے نتیجہ میں جو نسل پیدا ہوئی وہ ابتدامیں ’’دوغلی نسل‘‘ کہی گئی۔ اِسی طریق پر اب ہمارے یہاں ایک’’ دوغلی زبان‘‘ بھی پیدا ہوگئی ہے۔جس کے نتیجہ میں ہماری قومی حیات کے ہر شعبۂ زندگی میں ایک ’’دوغلاپن‘‘ بھی پیداہوگیا ہے۔خواہ گھریلو زندگی ہو یا معاشرتی زندگی، یہ دوغلاپن ہرجگہ نمایاں ہے۔ہماراقومی رویہ بھی یہی ہو گیا ہے کہ ہم ’’رند‘‘ بھی رہناچاہتے ہیں اور ہاتھ سے جنت بھی نہیں جانے دینا چاہتے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ اب تک ہمیں خداہی مِلا نہ وصالِ صنم ہوسکا۔ خداکی طرف سے تو ہمارے ملک کے دوٹکڑے ہوجانے سمیت متعدد تنبیہات آچکی ہیں اور اب تک آتی ہی چلی جارہی ہیں۔ جب کہ ’’صنم‘‘ نے بھی بقول خان معاذاﷲ خان اب ہماری ’’کُٹ‘‘ لگانی شروع کردی ہے۔’’گیدڑ کُٹ‘‘۔
ہمارے یہاں عریانی وفحاشی سمیت ’’کلچر‘‘ کے نام پرجس جس طرح کیبے حیائی درآئی ہے، وہ دراصل انگریزی زبان کو ’’اپنالینے‘‘ کے سبب سے ہمارے تمدن میں سرایت کرگئی ہے۔۔۔’کیاخبر تھی کہ چلاآئے گاالحاد بھی ساتھ؟‘۔۔۔جولوگ طاغوت کی غلامی سے رہائی کے تمنائی ہیں اُنھیں سب سے پہلے طاغوت کا یہ قلادہ اپنے گلے سے اُتارپھینکنا چاہیے، نہ کہ وہ بھی اپنے تعلیمی اِداروں پر اعتماد کرکے بھیجے جانے والے بچوں کے گلے میں یہی پٹّاباندھناشروع کردیں۔انقلابی تبدیلیوں میں سے بعض تبدیلیاں ایسی ہوتی ہیں جو ’’بنیادی تبدیلیاں‘‘ نہیں کہی جاتیں مگربنیادی تبدیلیوں کے لیے بنیادی کردارضروراداکرتی ہیں۔ انھیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔تبدیلی کا پہلا قدم انھی بنیادوں سے اُٹھانا چاہیے۔ آخر کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں سے تو ہمیں آغاز کرنا ہوگا۔ آغاز ہی نہیں کریں گے توتبدیلی کیسے آئے گی؟ ہم خرابیوں کا رونا تو بہت روتے رہتے ہیں، مگر ایک دوسرے کو یہ تلقین نہیں کرتے کہ:
ضمیرِؔ جعفری صاحب اُٹھو کچھ کام فرماؤ
فقط رونے سے میری جان دُشواری نہیں جاتی

ہم نے اپنے بچوں کو عربی اورفارسی کی تعلیم سے محروم رکھا توہمارے بچے ہماری ڈیڑھ ہزاربرس کی دینی، تمدنی اور تہذیبی تاریخ سے یکسرکٹ کررہ گئے۔ اب ہمارے بچے اُردوسے بھی ناواقف ہوئے جارہے ہیں تو اُن کا رشتہ تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان ہی سے نہیں برصغیر کی دینی روایات سے بھی منقطع ہوتانظرآرہاہے،ان میں تحمل، برداشت، بُردباری، ہم آہنگی،احساسِ ملت و وحدت اوراسلامی اخوت جیسی روایات شامل تھیں۔(ماضی کے مزاروں پر جلتے ہوئے ان روشن دیوں کی بہت سی حکایتیں سنائی جاسکتی ہیں، مگر جگہ باقی نہیں رہی)۔

قومی زبان کے سرکاری اورعدالتی نفاذ کی اہمیت اور اس کا لزوم اپنی جگہ۔لیکن اگرہم معاشرتی سطح پر اُردوکے رواج کی ایک طاقتور تحریک برپا کردیں تو نہ صرف قوم کی خوداعتمادی بحال ہوگی، بلکہ ایک توانا عوامی تحریک کی موجودگی میں سرکاردربارکوبھی قومی اور عوامی زبان اپنانے پر مجبور ہوجانا پڑے گا۔ کیا ہمیں کسی قانون نے مجبورکر رکھا ہے کہ ہم اپنے دستخط اُردو میں نہ کریں؟ اپنے گھروں پر اپنے ناموں کی تختیاں اُردو میں نہ لگائیں؟ اپنی دُکانوں اور اپنے نجی دفتروں کانام پتا اُردو میں نہ لکھیں؟ کیاوجہ ہے کہ ہماری سڑکوں کے کنارے آویزاں کیے جانے والے اشتہارات اُردومیں نہ ہوں۔ آخر کس نے حکم دیا ہے کہ ہمارے نجی اِداروں کے دفتری اُمور اُردومیں سرانجام نہ دیے جائیں؟ہمیں کس کا خوف ہے کہ ہم اپنے غیرحکومتی مطبوعہ او ربرقی ذرائع ابلاغ پر، اپنے نجی سمعی وبصری نشریاتی اِداروں میں اور اپنی غیر حکومتی تنظیموں میں روزمرہ اُمور سرانجام دینے کے لیے اُردو کا استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں؟

حکومتی سطح پر قومی زبان کے نفاذ کے لیے طلبہ و اساتذہ کی تنظیموں اور قومی سیاسی جماعتوں کی جو کوششیں ہیں اُن کو جاری رہنا چاہیے اورقومی زبان کے ہر متوالے کو اِس جدوجہد میں اپنا حصہ بھی ادا کرتے رہنا چاہیے۔ مگر غیر حکومتی سطح پر ہمارے اہلِ دانش وبینش اگرچاہیں تو پوری قوم کا مجموعی مزاج بدل سکتے ہیں۔ اگرقومی مزاج بدل گیا تو حکومت اور نوکر شاہی اِس قومی سیلاب کے سامنے کیا بند باندھسکے گی؟

No comments:

Post a Comment