Tuesday, November 12, 2013

Dr Atta Ur Rehman

گزشتہ مقالوں میں ،میں نے توانائی کے شعبے میں حیرت انگیز دریافتوں کاذکر کیا تھا۔ اس مقالے میں توانائی کی پیداوار اور اس کی حفاظت کیلئے مزید چند نئی ٹیکنالوجیوں کی دریافتیں نذر قارئین ہیں۔
سمندر کی سطح کے پانی اور اس کی گہرائی کے پانی کے درجہ حرارت کے فرق کا استعمال ایک بڑا ذریعہ توانائی ہے۔ سطح سمندر کا درجہ حرارت عموماً تہہ سمندر کے در جۂ حرارت سے زیادہ ہوتا ہے۔یہ درجۂ حرارت کی تفریق بجلی کی پیداوار کیلئے بخوبی استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس کیلئے Ocean Thermal Energy Conversion (O.T.E.C.), ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے جس میں سطحِ سمندر کا گرم پانی حرارت منتقلی کے پمپ سے گزارا جاتا ہے اس عمل سے جو حرارت حاصل ہوتی ہے اسے کم درجۂ اُبال والے مائع مثلاً امونیا کو بخارات میں تبدیل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اس بخاری گیس سے جو دبائو حاصل ہوتا ہے وہ بجلی بنانے والی ٹربائنوں کو چلانے کیلئے استعمال ہوتا ہے جن سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔
اس عمل سے بہتر نتائج کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ سطح سمندر اور سمندری تہہ کے درجہ حرارت کا فرق کم ازکم 20 درجہ Celsius ہو ۔ جیسا کہ عموماً گرم ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ فرق جتنا زیادہ ہو گا بتدریج اتنی ہی بجلی زیادہ بنے گی ایک درجے کے فرق سے 15% زیادہ بجلی کی پیداوار ہوتی ہے لہٰذا یہ دلچسپ ٹیکنالوجی ہوائی اور شمسی توانائی کے بر عکس جو موسم پر منحصر ہیں زیادہ مستقل، مستحکم اور بھروسہ مند ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کئی پائلٹ پلانٹوں میں استعمال کی جا رہی ہے اور جلد ہی تجارتی بنیادوں پر دستیاب ہو گی۔ Lockheed Martin, VanuatuXenesys, Pacific Otec اور چند دوسری کمپنیاں ایسی مناسب جگہ کی تلاش میں ہے جہاں سطح آب اور تہہ سمندر کے درجۂ حرارت میں زیادہ فرق ہو تاکہ تجارتی بنیادوں پر پروجیکٹ لگانے میں کامیاب ہو سکیں ۔ اس سلسلے کا10-15 میگاواٹ گنجائش کا حامل پہلا پلانٹ 2014 میں لگایا جائے گا جس کے بعد مزید گنجائش والا 100میگاواٹ کا پلانٹ لگایا جائے گا۔ 
شمسی خلیوں کی ٹیکنالوجی میں ان چند سالوں میں قابل دید پیشرفت ہوئی ہے۔اس میں سب سے قابلِ ستائش مادّہ گریفین ہے ۔یہ مادّہ کاربن کی ساختوں میں سے ایک ہے جس میں ہیرا، گریفائیٹ وغیرہ شامل ہیں۔یہ ہیرے سے کہیں زیادہ مضبوط اور ربڑ کی طرح لچکدار ہے۔یہ لوہے سے تقریباً 200 گنا مضبوط اور انسانی بال سے 150 گنا باریک ہے۔یہ اس قدر مضبوط ہے کہ اگر ہاتھی کو اس سے لٹکا دیا جائے تو یہ پھر بھی نہیں ٹوٹے گا۔ یہ مادّہ کاربن جوہر کی ایک تہہ پر مبنی ہوتا ہے۔جامعہ مانچسٹر کے دو سائنسدانوں Andre Geim اور Konstantin Novoselov کو 2010 میں طبعیات کے مضمون میں اس دو سمتی مادّے گریفین پر کامیاب تجربے کی بدولت نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ عام طور پر سلیکون کو شمسی خلیوں کی تیّاری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اب یہ ثابت ہوا ہے کہ گریفین اس سے کہیں بہتر طریقے سے روشنی کو بجلی میں منتقل کر سکتا ہے۔اسپین کے ادارے Institute of Photonic Sciences (ICFO) میں کئے گئے ایک تجزئیے کے مطابق گرفین سے تیّارکردہ شمسی خلیوں کی کارکردگی60% ہے جو کہ موجودہ تجارتی بنیادوں پر استعمال ہونے والے شمسی خلیوں کی کارکردگی سے چار گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ گریفین ایک عمدہ موصل conductor بجلی ہے بلکہ اس کی کارکردگی تانبے سے بھی بہتر پائی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے برقی آلات کی صنعت میں کافی پیشرفت ہوئی ہے۔ اس ’کراماتی مادّے‘ کی بدولت کاغذ جیسے پتلے ٹیلی ویژن اور کمپیوٹرتیّار کئے جا رہے ہیں بلکہ جنوبی کوریا کے محقّقین نے گریفین کو استعمال کرتے ہوئے 25 انچ کا ٹچ اسکرین ٹیلی وژن بھی تیار کر لیا ہے۔ کل کو شاید آپ کا اخبار بھی اسی مادّے سے تیارکردہ ملے گا۔ جسے سائیڈ میں لگے ٹیب سے فوری طور پر تازہ ترین کیا جاسکے گا۔
ہوائی توانائی کو استعمال کرنے کیلئے منفرد طریقے دریافت کئے جا رہے ہیں۔ دنیا میں کافی جگہوں پر ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ بہت بڑی ہوائی چرخیاں لگی ہوئی ہیں جن کے تین بھاری بھرکم بلیڈ ہیں جن سے بجلی حاصل کی جا رہی ہے ۔یہ ہوائی چرخیاں اتنی کارآمد نہیں ہیں کیونکہ تقریباًآدھی سے زیادہ ہوا ان کے بلیڈ کے گرِد ہوتی ہے ان بلیڈوں سے اندر نہیں جارہی ہوتی لہٰذا بجلی کی پیداواری صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ ایک امریکی کمپنی نے نئی قسم کی ہوائی چرخیاں تیّار کی ہیں جن کا ڈیزائن جیٹ انجن کے پنکھوں سے مشابہ ہے۔ اس کے بلیڈ کافی چھوٹے ہوتے ہیں اور ہوائی رخ کی طرف مڑ سکتے ہیں لہٰذا اپنے اردگرد کی تمام ہوا چرخی کے ذریعے ٹربائن تک پہنچاتے ہیں اور بڑی چرخیوں کی نسبت زیادہ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ ابتدا میں10 کلو واٹ کی طاقت کی حامل یہ چھوٹی چرخیاں لگائی جائیں گی ان کی کامیابی کے بعد میگا واٹ طاقت والی چرخیاں لگائی جائیں گی۔البتہ ایک مسئلہ ان چھوٹی ہوائی چرخیوں میں یہ ہے کہ بڑی ہوائی چرخیوں کی طرح یہ ہر قسم کی ہوائی حالت میں یکساں نہیں چل سکتیں مثلاً تیز طوفانی ہوائوں میں چرخی کو زیادہ تیز نہیں گھومنا چاہئے جبکہ بڑی چرخیاں بلیڈ کے مخصوص ڈیزائن کی بدولت اپنی چرخی کی رفتار کو قابو میں رکھ سکتی ہیں ۔اس کیلئے ان بلیڈوں میں سینسر لگائے جاتے ہیں جو ان ٹربائنوں سے جُڑے کمپیوٹروں کو سگنل پہنچاتے ہیں جو کہ ان ٹربائنوں کی رفتار کو ضرورت کے مطابق درست کر لیتے ہیں یہ کافی مہنگا حل ہے۔ 
قدرت ایک بہت بڑی معلّم ہے۔ تیز ہوائی جھکّڑوں میں ڈریگن مکھیاں جس طرح سے اپنی رفتار کو یکساں اور قابو میں رکھتی ہیں ان میں اس حل کے لئے کافی نشانیاں چھپی ہوئی ہیں۔ تیز و طوفانی ہوائوں میں ڈریگن مکھیاں اپنی رفتار پر اپنے پروں کی مخصوص ساخت کی وجہ سے قابو رکھ سکتی ہیں جو کہ کافی باریک اور لچکدار ہوتے ہیں اور ان پر ننھے ننھے سے ابھار ہوتے ہیں۔یہ ابھار ڈھیر سارے چھوٹے چھوٹے ہوائی بھنور بنالیتے ہیں جس کی بدولت انتہائی اعلیٰ قسم کا ہوائی ٹھرائو بنتا ہے۔ اسی حقیقت کے پیشِ نظر جاپان میں Nippon Bunri University کے Akira Obata نے ایسی مائکرو ٹربائن ایجاد کی ہے جو کارکردگی میں پرانے ٹربائنوں سے کہیں بہتر ہے۔پاکستان کو اپنی توانائی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ملک میں موجود کوئلہ، پانی، ہوا اور حال ہی میں دریافت کردہ سلیٹی گیس اور سلیٹی تیل کے ذخائر کو استعمال کرنا چاہئے جن کے بارے میں میرے پچھلے مقالوں میں ذکر کیا جا چکا ہے۔
قارئین میں سے ایک نے اس طرف بھی اشارہ کیا جو بالکل درست ہے کہ ہمارے ملک میں جتنے بھی برقی آلات بن رہے ہیں وہ سب ’توانائی نااہل‘ ہیں مثلاً پنکھے ، ٹیوب ویل، موٹریں اور چھوٹی موٹی ورکشاپ کی مشینیں نہ صرف چالو ہوتے وقت زیادہ بجلی گھسیٹتی ہیں بلکہ چلنے کے دوران بھی امریکی، یورپی حتیٰ کہ چینی آلات سے کہیں زیادہ بجلی استعمال کرتی ہیں۔ کوئی بھی آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ ایسے ہی لاکھوں پنکھے، ٹیوب ویل، موٹریں اور ورکشاپ موٹریں سب مل کر کس قدر بجلی کی توانائی برباد کر رہے ہیں محض اس لئے کہ ان صنعتوں میں جہاں یہ موٹریں اور آلات تیار کئے جا رہے ہیں وہاں کا معیار ناقص ہے بالخصوص توانائی کی کارکردگی کے حوالے سے۔ اسی طرح مقامی طور پر بنائے گئے بسوں اور ٹرکوں کے ڈھانچے بھی ’ توانائی نااہل‘ ہیں ان پر ہمیں فوری توجّہ دینی چاہئے ۔

No comments:

Post a Comment